فاسٹ فوڈ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا آغاز 18 ویں صدی میں امریکا سے ہوا۔ ابتدا میں سستے اور غیر معیاری قسم کے برگر صرف میلوں ٹھیلوں اور سرکس وغیرہ میں اسٹالز پر دستیاب ہوتے تھے۔ بعد ازاں انیسویں صدی میں ”وائٹ کاسل“ نامی پہلی فوڈ چین معرض وجود میں آئی جو اعلیٰ معیار کے برگر اپنے گاہکوں کو ریستورانوں میں فراہم کرتے تھے۔ اس کے بعد میکڈونلڈ برادرز نے 1948ء اپنی فوڈ چین میکڈونلڈ کا آغاز کیا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے تیزی سے بدلتی دنیا میں فاسٹ فوڈ کا رجحان بھی تیزی سے فروغ پانے لگا۔
فاسٹ فوڈ نہ صرف اس دور کے نوجوانوں میں ایک خاص رجحان بن کر ابھرا بلکہ اس سے ان لوگوں کو بھی بھرپور فائدہ پہنچا جنہیں کام کے دوران گھر کا کھانا دستیاب نہ تھا۔ اور وہ اپنے مختصر دورانئے کے بریک ٹائم میں صاف ستھرا اور صحت بخش کھانا کھانے کے خواہش مند تھے۔
رفتہ رفتہ فاسٹ فوڈ کی مقبولیت یورپ اور امریکا کے ساتھ دنیا میں پھیلنے لگی۔ اس دوران غیر ملکی مشہور فوڈ چینز نے اپنا نیٹ ورک بڑھایا اور دنیا بھر کے ممالک میں فاسٹ فوڈ کلچر تیزی سے فروغ پانے لگا۔ مغرب سے فاسٹ فوڈ کلچر مشرق اور دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی پہنچ گیا۔ طبی ماہرین اور صحت سے متعلق اداروں نے فاسٹ فوڈ کو نقصان دہ قرار دیا ہے، مگر زمانے کی تیز رفتار ترقی اور وقت کی کمی کے باعث یہ کلچر تیزی سے ساری دنیا میں پھیلنے لگا۔
طبی ماہرین فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہیں، کیوں کہ ان میں کیلوریز کا تناسب خاصا زیادہ ہوتا ہے۔
فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال نے پاکستانیوں کی سماجی و معاشرتی زندگی کو مکمل تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ صبح کا ناشتا اور رات کا کھانا تاخیر سے کھانے کے باعث لوگوں کی سماجی زندگی اب گھر اور خاندان کے بجائے ہوٹلوں تک محدود ہوگئی ہے۔ جو لوگ اچھا کھانا کھانے اور کھلانے کے شوقین تھے، اب گھروں پر روایتی کھانوں کی دعوتیں کرنے کے بجائے ہوٹلوں میں کھانا کھانے اور کھلانے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے روایتی خاندانی نظام اور رابطے کم زور ہورہے ہیں۔ فاسٹ فوڈ ریستورانوں نے بھی نصف شب کے بعد اپنی پروڈکٹس کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرکے لوگوں کو خصوصاً نوجوان کو نصف شب کے بعد گھروں سے باہر رہنے پر مجبور کردیا ہے۔
30 سال پہلے لاہور میں کھانے پینے کی مختلف اشیا کے لیے مشہور ’ڈھابے‘ ہوا کرتے تھے۔ اب لاہور میں 20 ہزار کے قریب ہوٹل اور ریستوران ہیں۔
کراچی میں برگر، بریانی، حلیم، روسٹ، گولا کباب، چپلی کباب، نہاری، پائے، سینڈوچ اور دوسرے کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ کراچی میں اس وقت سب سے زیادہ چلنے والا کاربار ہی کھانے پینے کا ہے۔
آج ہمیں ہر طرف برگر ہاؤس، پیزا کی دکانیں، دہی بڑے، گول گپے کی ریڑھیاں نظر آتی ہیں۔ جب بھی ان کے پاس سے گزریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم ہی گھر پر کھانا کھانے کے بجائے فاسٹ فوڈ پر گزارا کررہی ہے۔ یہ کھانے گھر کے کھانوں سے کئی گنا زیادہ مہنگے ہیں اور مضر صحت بھی ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہم ہر طرف مہنگائی کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن اس کے باوجود آپ کسی دکان، ریڑھی یا ریسٹورنٹ میں چلے جائیں وہاں آپ کو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ نظر آئیں گے۔
طبی ماہرین کے نزدیک یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے کہ ایک بچہ جس کا جسم ابھی نشو ونما کے مراحل سے گزر رہا ہے وہ کولڈ ڈرنک کو دودھ اور برگر کو روٹی پر فوقیت دے۔ ہمارے ہاں اشتہار بازی پر کسی قسم کا چیک نہ ہونے کی وجہ سے بھی ابتری پیدا ہوئی ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں بھی بڑے بڑے اداروں کی طرف سے برگرز کی مختلف اقسام کے خوش نما اشتہارات اور چٹ پٹی تصاویر نمایاں ہوتی ہیں جو معصوم بچوں کے اذہان میں تبدیلی کا باعث ہیں۔ بچے ان اشتہارات سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور پھر والدین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ برگر، پیزا اور چپس ضرور کھائیں گے۔ والدین بالعموم بچوں کو انکار نہیں کرسکتے۔ نتیجتاً، غیر صحت مندانہ عادات کو فروغ مل رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس قسم کی غذاؤں پر قابو نہ پایا گیا تو جلد ہی 13 سے 20 سال کے لڑکے لڑکیوں کی اکثریت ہیلتھ کلینکس کا رخ کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے مٹاپے میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، خصوصاً لڑکیوں میں مٹاپا بڑھ رہا ہے۔ ایک لڑکی کے لیے بہت کڑا وقت ہوتا ہے جب اس پر مٹاپا غالب آجاتا ہے اور یہ مٹاپا کثرت کے ساتھ برگر اور کولڈ ڈرنک کے استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب اس کی سہیلیاں اس کے مٹاپے کا مذاق اڑاتی ہیں۔
اگر آپ اس مٹاپے سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنے کھانے پینے کی عادات پر سختی سے کنٹرول کیجیے۔ برگر اور کولڈ ڈرنک کے بجائے دودھ اور سبزیوں کا استعمال اپنی غذا میں ضرور کیجیے۔ یہ جسم پر موجود فالتو چربی کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جبکہ مٹاپا نہ صرف جسمانی ساخت کو متاثر کرتا ہے بلکہ بچے کے ذہن پر بھی اس کے اثرات برے ہوتے ہیں۔ ایک بچے کا جب وزن بڑھتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ایک معاشرتی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔بچے کا آئی کیو لیول بھی بہت کم ہوجاتا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ جب لمبے سفر پر نکلتے تھے تو ہفتوں اور مہینوں کا راشن اور غذا ساتھ لے کر چلتے تھے۔ میلوں سفر کرنے کے بعد کسی شہر میں اگر کوئی سرائے مل جاتی تو وہاں کچھ دیر آرام کرلیتے تھے اور کھانا بھی کھا لیتے۔ جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی، کچے راستے پکی سڑکوں اور شاہ راہوں کا روپ دھارنے لگے تو سرائے، ریسٹورینٹ اور ہوٹل میں تبدیلی آنے لگی۔ اب آپ ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک کے لیے روانہ ہوں تو آپ کو راستے میں غذا کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
قیام پاکستان کے وقت نہ تو ہمارے پاس کوئی موٹروے تھی اور نہ کوئی عالمی شاہ راہ تھی۔ اب آپ کو ٹرک ہوٹل سے لے کر میک وے ہوٹل تک ہر طرح کی ہوٹلنگ سروس ملے گی۔ ہمارے ہاں گھر سے باہر کھانا کھانے جانا ”اسٹیٹس سمبل“ سمجھا جاتا ہے۔ بعض شہروں میں تو سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ”فوڈ اسٹریٹ“ بھی بنائی گئی ہیں۔ شاہ راہوں کے کنارے بنے ہوئے ہوٹلوں اور بڑے شہروں میں بنائی جانے والی فوڈ اسٹریٹس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جاتی ہے۔ آج کل سڑکوں کے کنارے بیٹھ کر کھانا کھانا ایک کلچر سا بنتا جا رہا ہے۔
ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ ایک تواِن کھانوں میں تیز مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں، دوسرے گوشت کو جلد گلانے کے لیے مختلف کیمیائی اجزا ڈالے جاتے ہیں جو شکم سیری کے بعد انسانی معدے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مصالحہ جات کی تیزی اور نقصان اپنی جگہ، ایک اور بات جو انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے، کھانے کی ان جگہوں کا اوپن ایر ہونا ہے۔ لاہور کی فضا میں آلودگی اور گرد کا تناسب پاکستان کے دیگر علاقوں اور شہروں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ سال کے اکثر مہینے شدید اور درمیانی گرمی کی زد میں رہتے ہیں۔ ایسا موسم مچھر، مکھی، جراثیم، وائرس، کیڑے مکوڑوں، لال بیگ، چوہوں کی افزائش نسل کے لیے معاون ہوتا ہے۔ کھانے کی یہ جگہیں چونکہ سڑک کے کنارے گندی جگہوں پر ہوتی ہیں، اس لیے عموماً کھانے پینے کی اشیا پر گرد کی ایک تہ جمنے لگتی ہے۔ اس گرد میں کوڑے کرکٹ کے ذرات، مٹی کا باریک پاؤڈر اور جوتوں کی رگڑ سے اڑنے والی گندگی کے نادیدہ اثرات اس پر دوسری تہ لگا دیتے ہیں۔ اس کے بعد شہر میں چلنے والے رکشاؤں، بسوں اور چولھوں کا دھواں آلودگی کی صورت میں ان اشیائے خورد و نوش پر ایک تیسری تہ جماتا ہے۔ اس کے بعد مکھیوں کی آمد و رفت، اشتہا انگیز کھانوں پر طرح طرح کے جراثیم اور وائرس بھرتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ نام نہاد لذیذ کھانے ایک معدہ شکن راکٹ بن کر انسانی پیٹ میں اتر جاتے ہیں اور معدے کے ساتھ ساتھ آنتوں، جگر اور گردوں کا ستیاناس کرتے چلے جاتے ہیں۔
ماہرین غذائیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر چوتھا شخص السر کا مریض ہے۔ یہ السر معدے سے لے کر چھوٹی سے بڑی آنتوں تک پھیلے ہوتے ہیں۔ معدے اور آنتوں کے السر کی بڑی وجہ تیز مصالحہ جات اور سرخ مرچ کی زیادتی ہے۔ معیاری گھی کے بجائے سستا گھی اور چربی استعمال کی جاتی ہے۔ اس تیل کو وزارتِ صحت نے انسانی صحت کے لیے زہر قاتل قرار دیا ہے، کیوں کہ سستے گھی اور تیل میں ایک زہریلا عنصر موجود ہوتا ہے جو آنتوں کی جھلی کو زخمی کردیتا ہے۔ مضر صحت چربی گلے اور ٹانسلز کی خرابی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے اور خون کے کولیسٹرول کے تناسب کو خطرناک حد تک بڑھادیتی ہے۔ پھر یہ ایک خاص حد تک پہنچ کر انسانی قلب کی نازک رگوں میں جم جاتا ہے۔ اس لیے پہلے تو انسانی دل کی دھڑکن اپنی روانی کھو بیٹھتی ہے، اس کے بعد دل کے دورے ایک مستقل مرض کی صورت میں انسانی جان کے لیے خطرہ بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ تیزابی عنصر کی زیادتی گردے اور جگر پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔
ٹھیلوں ریڑھوں وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کھانے کم قیمت پر مہیا ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، لیکن یہ لوگ قیمتوں کے باہمی مقابلے میں بازی لے جانے کے لیے بعض اوقات ایسی حرکات کے مرتکب بھی ہونے لگتے ہیں جو اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے درست نہیں ہوتیں۔ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جب ان اسٹالوں سے بیمار اور نیم جان جانوروں کا گوشت پکڑا گیا۔ ایسی حرکت صرف چند پیسوں کی خاطر کی جاتی ہیں، گویا یہ چیزیں فروخت کرنے والوں کی نظر میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔